ہفتہ، 1 جولائی، 2017
0
داڑھی اسلام میں سنت کے لحاظ سے ایک اہم کردار رکھتی ہے جیسا کہ داڑھی رکھنا تمام انبیاء علیہ السلام کے ساتھ ساتھ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی بھی زینت ہے۔ اب ظاہر بات ہے سلف، محدثین اور اماموں نے بھی اس سنت کو ترک نہیں کیا ہو گا۔ داڑھی کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ اللہ رب العالمین نے مرد کے چہرے پر داڑھی رکھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ داڑھی مرد کی خوبصورتی اور زینت میں اضافہ کرتی ہےجبکہ دوسری طرف عورت کے منہ پر داڑھی نہ رکھنے میں حکمت یہ نظر آتی ہے کہ عورت کاداڑھی کی وجہ سے چہرہ بدذیب ہو جاتا۔
جیسا کہ نیچے دی گئی متعدد صحیح احادیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نبی ﷺ نے داڑھی کے بارے میں کتنے واضع احکامات صادر فرمائے۔ داڑھی کو معاف کرنے کے ساتھ ساتھ مردوں کو مونچھیں کاٹنے کا بھی حکم دیا گیا۔ جیسا کہ ایک صحیح روایت کے مفہوم کے مطابق فارس کے مجوسی مونچھیں رکھتے اور داڑگی کو کاٹتے جس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ مشرکین کی مخالفت کرو داڑھی کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔ بعض علما نے اس حدیث سے استدلال لیتے ہوئے داڑھی کو فرض تک قرار دے دیا ہے۔ واللہُ اعلم
داڑھی کی تمام احادیث کا ایک لائن میں مفہوم نکالا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ داڑھی کو کسی صورت بھی نہ کاٹا جائے چاہے یہ ناف تک بھی چلی جائےاور مونچھیں ضرور کاٹی جائیں۔ اب کچھ لوگ گالوں پر سے بال صاف کرا لیتے ہیں اور نیچے سے داڑھی کا خط بھی بنوا لیتے ہیں اور ساتھ ساتھ داڑھی کی ہر تیسرے دن حجام سے باقاعدہ سیٹنگ بھی کرواتے ہیں۔ ان لوگوں کو سمجھانے کے لیے ایک مثال دیتا ہوں کہ اگر ایک بادشاہ ایک قیدی جو اس نے جنگ میں بنایا تھا۔ اُس قیدی کو کہتا ہے کہ جاؤ میں نے تمہیں معاف کیا تو اس بات کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔
پہلا کہ بادشاہ قیدی کو مکمل طور پر چھوڑ دے
دوسرا یہ کہ قیدی کے دونوں ہاتھ ، دونوں پاؤں، دونوں کان اور ناک کاٹ دیا جائے اور کہا جائے جاؤ تمہیں معاف کیا۔
اب ایک جاہل بندہ بھی بتا سکتا ہے کہ پہلا مطلب ہی صحیح ہے کیونکہ اگر قیدی کے ہاتھ پاؤں، ناک اور کان کاٹ کر چھوڑا جائے تو اسکو معاف کرنا نہیں کہیں گے۔ جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے فتح مکہ والے دن بڑے بڑے سرداروں کو معاف کر دیا تو اسکا یہی مطلب ثابت بھی کیا کہ اب انہیں اسلام میں امان ہے سلامتی ہے۔
اب آئیں کچھ لوگ حضرت عبداللہ بن عمرؓ والی روایت کی طرف جس سے چند مفاد پرست مولوی جو داڑھی کو ہر دوسرے دن کاٹنے کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اُسی حدیث میں یہ لفظ نمایاں ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓحج یا عمرے کے دن داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر نیچے سے کچھ بال تراشتے تھے۔ اب مسئلہ یہ سمجھ میں آیا کہ اول تو اگر صحابی رسول کے فعل پر عمل کرنا ہے تو حج یا عمرہ والے دن کا انتظار کریں کیونکہ انہوں نے تو صرف حج یا عمرہ پر یہ کام کیا تو آپ لوگ ہر دوسرے دن حجام سے داڑھی کو چھوٹا کروا کر سنت کی مذاق بناتے ہیں۔ اگر آپ کوابنِ عمرؓ کے اس فعل سے زیادہ ہی محبت ہے تو انتظار کریں حج یا عمرہ کے دن کی اور صرف اسی دن داڑھی کو مٹھی سے پکڑ کر نیچے سے کچھ حصہ کاٹا کریں اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر یہودُ نصاریٰ والے داڑھی کے ڈیزائن بنا کر سنت کا خوب مذاق اڑائیں ان شاء اللہ یہی عمل آپ کی پکڑ کو کافی ہو سکتا ہے۔ اسکے علاوہ ابنِ عمرؓ داڑھی کی کئی احادیث کے راوی ہیں جس میں داڑھی کو معاف کرنے کا حکم ہے لہذا اصول محدثین کے مطابق جب کسی راوی کا عمل اسکی بیان کردہ روایت کے خلاف ہو تو راوی کی روایت کے بجائے بیان کردا درایت کا اعتبار ہوتا ہے۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ داڑھی ضروری نہیں بس نماز روزہ اور دیگر عبادات لازم ہونی چاہیئں داڑھی کی خیر ہے۔ تو اُن عقل پرستوں کے لیے یہ کہوں گا کہ داڑھی کی خیر ہے مونڈ دو، مونچھوں کی خیر ہے بڑھا لو، نماز کی خیر ہے چھوڑ دو، جہاد کی خیر ہے نہ کرو گویا اسی طرح ایک ایک سنت چھوڑتے جاؤ اور جو سنت کا انکار کرے گا تو اسکو یہ بات سوچنی چاہیئے کہ وہ نبی ﷺ کے فرامین کو رد کر رہا ہے تو اس کا انجام اس کو جہنم کی صورت میں ملے گا۔
اب آتے ہیں منکریں احادیث کی طرف جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ رب العزت خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند فرماتے ہیں اس لیے داڑھی اتنی رکھو جتنی تمہیں خوبصورت لگے۔ واہ واہ کیا دلیل ہے جناب، کیا نعوذباللہ اللہ کے رسول ﷺ کو یہ بات نہیں پتہ تھی کہ داڑھی اگر معاف کریں گے توبُری لگے گی تو پھر نبی علیہ السلام نے یہ حکم کیوں دیا کہ داڑھی کو معاف کرو؟۔ یعنی گویا حضرت یوسف و دیگر انبیاء علیہ السلام نے داڑھی کو معاف کر رکھا تھا تو گویا نعوذباللہ آپ کے فارمولا کے مطابق انبیاء کو داڑھی بدذیب لگ رہی ہو گی؟ امام نسائی نے حدیث 5228 کو کتاب الزینۃ میں لا کر یہ ثابت کر دیا کہ مرد کی زینت داڑھی رکھنے میں ہے منکرین احادیث کی سوچ کے مطابق نہیں کیونکہ اُسی حدیث میں یہ الفاظ ہیں داڑھی کو خوب بڑھاؤ تو اب فیصلہ کر لونبی علیہ السلام کی اطاعت کرو گے یا اپنے نفس کی غلامی کر کے جہنم کے راستے پر چلنا ہے۔
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرواور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو ضائع مت کرو (سورۃ محمد: 33)۔
جس کے دل کو پم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے (سورۃ الکعف:28)۔
نیز ہر ایک کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد ہمیں اس بات پر پہنچنا چاہیئے کہ داڑھی کے کسی بھی بال کو نہ کاٹا جائے بلکہ اوپر نیچے، دائیں، بائیں ہر جانب سے معاف کیا جائے اور مونچھوں کوہر صورت کاٹا جائے اس سے یہودُ نصاریٰ سے مشابہت ختم ہو جاتی ہے۔ مونچھوں کو کاٹنے کے لیے بلیڈ، ریزر یا قینچی کوئی بھی آلہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مزید معلومات کے لیےنیچے دی گئی سنن نسائی کی حدیث نمبر 15 کے فوائد پڑھ لیں۔
Darhi Ko Muaaf Karna aur Moonchon Ko Katna / داڑھی کوکاٹنا اوراس کا خط
داڑھی اسلام میں سنت کے لحاظ سے ایک اہم کردار رکھتی ہے جیسا کہ داڑھی رکھنا تمام انبیاء علیہ السلام کے ساتھ ساتھ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی بھی زینت ہے۔ اب ظاہر بات ہے سلف، محدثین اور اماموں نے بھی اس سنت کو ترک نہیں کیا ہو گا۔ داڑھی کی اہمیت اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ اللہ رب العالمین نے مرد کے چہرے پر داڑھی رکھی جس سے پتہ چلتا ہے کہ داڑھی مرد کی خوبصورتی اور زینت میں اضافہ کرتی ہےجبکہ دوسری طرف عورت کے منہ پر داڑھی نہ رکھنے میں حکمت یہ نظر آتی ہے کہ عورت کاداڑھی کی وجہ سے چہرہ بدذیب ہو جاتا۔
جیسا کہ نیچے دی گئی متعدد صحیح احادیث سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نبی ﷺ نے داڑھی کے بارے میں کتنے واضع احکامات صادر فرمائے۔ داڑھی کو معاف کرنے کے ساتھ ساتھ مردوں کو مونچھیں کاٹنے کا بھی حکم دیا گیا۔ جیسا کہ ایک صحیح روایت کے مفہوم کے مطابق فارس کے مجوسی مونچھیں رکھتے اور داڑگی کو کاٹتے جس کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ مشرکین کی مخالفت کرو داڑھی کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔ بعض علما نے اس حدیث سے استدلال لیتے ہوئے داڑھی کو فرض تک قرار دے دیا ہے۔ واللہُ اعلم
داڑھی کی تمام احادیث کا ایک لائن میں مفہوم نکالا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ داڑھی کو کسی صورت بھی نہ کاٹا جائے چاہے یہ ناف تک بھی چلی جائےاور مونچھیں ضرور کاٹی جائیں۔ اب کچھ لوگ گالوں پر سے بال صاف کرا لیتے ہیں اور نیچے سے داڑھی کا خط بھی بنوا لیتے ہیں اور ساتھ ساتھ داڑھی کی ہر تیسرے دن حجام سے باقاعدہ سیٹنگ بھی کرواتے ہیں۔ ان لوگوں کو سمجھانے کے لیے ایک مثال دیتا ہوں کہ اگر ایک بادشاہ ایک قیدی جو اس نے جنگ میں بنایا تھا۔ اُس قیدی کو کہتا ہے کہ جاؤ میں نے تمہیں معاف کیا تو اس بات کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔
پہلا کہ بادشاہ قیدی کو مکمل طور پر چھوڑ دے
دوسرا یہ کہ قیدی کے دونوں ہاتھ ، دونوں پاؤں، دونوں کان اور ناک کاٹ دیا جائے اور کہا جائے جاؤ تمہیں معاف کیا۔
اب ایک جاہل بندہ بھی بتا سکتا ہے کہ پہلا مطلب ہی صحیح ہے کیونکہ اگر قیدی کے ہاتھ پاؤں، ناک اور کان کاٹ کر چھوڑا جائے تو اسکو معاف کرنا نہیں کہیں گے۔ جیسا کہ اللہ کے رسولﷺ نے فتح مکہ والے دن بڑے بڑے سرداروں کو معاف کر دیا تو اسکا یہی مطلب ثابت بھی کیا کہ اب انہیں اسلام میں امان ہے سلامتی ہے۔
اب آئیں کچھ لوگ حضرت عبداللہ بن عمرؓ والی روایت کی طرف جس سے چند مفاد پرست مولوی جو داڑھی کو ہر دوسرے دن کاٹنے کے جواز کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اُسی حدیث میں یہ لفظ نمایاں ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓحج یا عمرے کے دن داڑھی کو مٹھی میں پکڑ کر نیچے سے کچھ بال تراشتے تھے۔ اب مسئلہ یہ سمجھ میں آیا کہ اول تو اگر صحابی رسول کے فعل پر عمل کرنا ہے تو حج یا عمرہ والے دن کا انتظار کریں کیونکہ انہوں نے تو صرف حج یا عمرہ پر یہ کام کیا تو آپ لوگ ہر دوسرے دن حجام سے داڑھی کو چھوٹا کروا کر سنت کی مذاق بناتے ہیں۔ اگر آپ کوابنِ عمرؓ کے اس فعل سے زیادہ ہی محبت ہے تو انتظار کریں حج یا عمرہ کے دن کی اور صرف اسی دن داڑھی کو مٹھی سے پکڑ کر نیچے سے کچھ حصہ کاٹا کریں اور اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر یہودُ نصاریٰ والے داڑھی کے ڈیزائن بنا کر سنت کا خوب مذاق اڑائیں ان شاء اللہ یہی عمل آپ کی پکڑ کو کافی ہو سکتا ہے۔ اسکے علاوہ ابنِ عمرؓ داڑھی کی کئی احادیث کے راوی ہیں جس میں داڑھی کو معاف کرنے کا حکم ہے لہذا اصول محدثین کے مطابق جب کسی راوی کا عمل اسکی بیان کردہ روایت کے خلاف ہو تو راوی کی روایت کے بجائے بیان کردا درایت کا اعتبار ہوتا ہے۔
کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ داڑھی ضروری نہیں بس نماز روزہ اور دیگر عبادات لازم ہونی چاہیئں داڑھی کی خیر ہے۔ تو اُن عقل پرستوں کے لیے یہ کہوں گا کہ داڑھی کی خیر ہے مونڈ دو، مونچھوں کی خیر ہے بڑھا لو، نماز کی خیر ہے چھوڑ دو، جہاد کی خیر ہے نہ کرو گویا اسی طرح ایک ایک سنت چھوڑتے جاؤ اور جو سنت کا انکار کرے گا تو اسکو یہ بات سوچنی چاہیئے کہ وہ نبی ﷺ کے فرامین کو رد کر رہا ہے تو اس کا انجام اس کو جہنم کی صورت میں ملے گا۔
اب آتے ہیں منکریں احادیث کی طرف جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ رب العزت خوبصورت ہیں اور خوبصورتی کو پسند فرماتے ہیں اس لیے داڑھی اتنی رکھو جتنی تمہیں خوبصورت لگے۔ واہ واہ کیا دلیل ہے جناب، کیا نعوذباللہ اللہ کے رسول ﷺ کو یہ بات نہیں پتہ تھی کہ داڑھی اگر معاف کریں گے توبُری لگے گی تو پھر نبی علیہ السلام نے یہ حکم کیوں دیا کہ داڑھی کو معاف کرو؟۔ یعنی گویا حضرت یوسف و دیگر انبیاء علیہ السلام نے داڑھی کو معاف کر رکھا تھا تو گویا نعوذباللہ آپ کے فارمولا کے مطابق انبیاء کو داڑھی بدذیب لگ رہی ہو گی؟ امام نسائی نے حدیث 5228 کو کتاب الزینۃ میں لا کر یہ ثابت کر دیا کہ مرد کی زینت داڑھی رکھنے میں ہے منکرین احادیث کی سوچ کے مطابق نہیں کیونکہ اُسی حدیث میں یہ الفاظ ہیں داڑھی کو خوب بڑھاؤ تو اب فیصلہ کر لونبی علیہ السلام کی اطاعت کرو گے یا اپنے نفس کی غلامی کر کے جہنم کے راستے پر چلنا ہے۔
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرواور رسول کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو ضائع مت کرو (سورۃ محمد: 33)۔
جس کے دل کو پم نے اپنے ذکر سے غافل کر دیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گزر چکا ہے (سورۃ الکعف:28)۔
نیز ہر ایک کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد ہمیں اس بات پر پہنچنا چاہیئے کہ داڑھی کے کسی بھی بال کو نہ کاٹا جائے بلکہ اوپر نیچے، دائیں، بائیں ہر جانب سے معاف کیا جائے اور مونچھوں کوہر صورت کاٹا جائے اس سے یہودُ نصاریٰ سے مشابہت ختم ہو جاتی ہے۔ مونچھوں کو کاٹنے کے لیے بلیڈ، ریزر یا قینچی کوئی بھی آلہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مزید معلومات کے لیےنیچے دی گئی سنن نسائی کی حدیث نمبر 15 کے فوائد پڑھ لیں۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
ایک تبصرہ شائع کریں